سمے وار (تحریر: معظم علی)
وہ جن کی عمریں 30 سال سے زائد ہے، وہ جان سکتے ہیں کہ “گیم” پر جانا کیا ہوتا تھا۔ یہ ایک ایسی دکان ہوتی تھی جہاں ٹوکن کے عوض ہم لڑکے کچھ دیر کے لیے مختلف گیم کھیل لیا کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں کئی بچوں کے نظر کے چشمے بھی لگتے۔ چشمہ بنواتے ہوئے تاکید کی جاتی خبردار ٹی وی پاس سے نہ دیکھنا اور گیم تو بھول ہی جائو۔ تب یہی دو عیاشیاں ہوتی تھیں، ٹی وی بھی سرکاری تھا، اس لیے وی سی آر یا ڈش کے ذریعے فلمیں یا ہندوستانی نشریات کا شوق ہوتا۔ باقی ٹی وی پر اٹاری چلا لیتے یا پھر اکثر بچے گیم کی دکان پر جا کر ٹوکن کھیل لیتے۔ اندر بلا کا شور ہوتا کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ گیم خالی نہیں ہوتا کبھی انتظار زیادہ کرنا پڑتا۔ کبھی ساتھ کھیلنے والے کی ضرورتی ہوتی تو کبھی اکیلے بھی کھیل لیا جاتا۔ ہر محلے میں جیسے ویڈیو کیسٹ کی دکانیں ہوتی تھیں ویسے ہی گیم بھی لازمی ہوتا تھا۔ اکثر اس کے ساتھ “پٹی” اور ڈبو بھی ہوتے تھے۔
اصل کہنے کی بات یہ کہ بہ ظاہر تو گیم بری چیز نہیں تھی سوائے اس کے کہ وقت ضائع ہوتا تھا اور بچوں کا دھیان پڑھائی سے ہٹتا تھا۔ لوگ اسکول اور مدرسے سے چھٹی لے کر یہاں وقت گزارتے۔ اس کے ساتھ ایک چیز جو تھی جس کی وجہ سے اچھے گھروں کے لوگ گیم کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ یہاں کا ماحول خراب ہوتا تھا۔ لڑکوں کے جھگڑے ہوجاتے تھے، بچے سگریٹ، گٹکے اور پان وغیرہ کی لت میں لگ جاتے تھے۔
اس لیے کہا جاتا کہ بیٹا ویڈیو گیمز پر مت جایا کرو، وہاں گندے بچے ہوتے ہیں!
جب بھی امی یہ بات کہتی تو میں چُپکے سے اپنے ابو جان کی طرف دیکھتا، اور ابو آنکھوں ہی انکھوں میں اشارہ دیتے کہ فکر کیوں کرتے ہو، میں لے جاؤں گا۔ اور پھر شام کو ابو سودا سلف لینے جاتے اور مجھے ویڈیو گیم کی دکان پر لے جاتے اور ساتھ کھڑے رہتے، مجھے گیم کھیلتا دیکھتے اور کبھی انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جلدی کرو، دیر ہو رہی ہے۔ اور میں ابو سے بے خبر گیم کھیلتا، اور جب جی بھر جاتا تو ہم واپس چلے آتے اور امی کو کان و کان خبر نہ ہوتی۔
خیر وقت گذرتا گیا اور میرا ویڈیو گیم کھیلنے کا شوق ماند پڑ گیا تھا تو میں نے ابو جان سے پوچھا کہ آپ امی سے چھپ کر مجھے ویڈیو گیمز کی دوکان پر لے جاتے ہیں، بری صحبت تو تب بھی پاس ہوتی تھی، تو آپ مجھے کیوں لے جاتے تھے تو اس کے جواب میں ابو نے کہا کہ
“بیٹا، میرا آپ کے ساتھ ہونا آپ کو بری صحبت سے محفوظ رکھتا تھا”
یہ بات سن کر میں حیران رہ گیا کہ وہ باپ جس کو دفتر میں ملنے کے لیے لوگ گھنٹوں انتظار کر تے تھے، وہ اپنے وقت کی پروا کیے بغیر میرے ساتھ گھنٹوں ویڈیو گیم کی دکان میں کھڑا رہتا تھا اور جب وہی بڑھاپے میں گئے تو ان کے پاس بیٹھنا اور ان سے لمبی گپ شپ لگانا مشکل لگنے لگا۔ وہ اکثر چاہتے تھے کہ میں ان کے پاس بیٹھوں اور ان کے کئی دفعہ سنے ہوئے واقعات دوبارہ سنوں لیکن میں کھسک جاتا تھا اور کچھ فضول ترجیحات میں خود کو مصروف کر لیتا تھا۔ آج یہ کمی محسوس ہوتی ہے کہ کاش وہ وقت دوبارہ آ جائے اور میں ابو کے ساتھ بیٹھ کر لمبی باتیں کروں اور ان کے واقعات بار بار اتنی ہی دلچسپی سے سنوں مگر وہ وقت کبھی واپس نہیں آ سکتا۔ اللّٰہ تعالیٰ سب کے والدین کو لمبی زندگی عطا فرمائے اور جن کے والدین دنیا سے جا چکے ہیں ان کی مغفرت فرمائے ۔ آمین
****
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)
Categories
ابو “ویڈیو گیم” پر کیوں لے کر جاتے تھے؟
