تحریر: رضوان طاہر مبین
یہ سب سامنے کی باتیں ہیں، سبھی کو ماننی چاہئیں!
دراصل ہمیں بہت سے گھرانوں کو خود ہی اپنی حیثیت، تاریخ اور اس ریاست میں حصے داری کا نہیں پتا، ہم پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے
جیسے ہاتھی کو یہ باور کرادیا کہ وہ ہرن ہے، شیر کو کہہ دیا گیا کہ وہ کتا ہے تو اس نے مان لیا۔ یہ حال ہے ہمارا
ہمیں احسان جتا جتا کر یہاں بدھو اور احمق بنا دیاگیا ہے
ہم 56 فی صد ریاست پاکستان کے مالک ہیں جناب!
یہ ہماری لکھی ہوئی تاریخ ہے، ہمارے ووٹوں کے بغیر برصغیر کے یہ مسلم اکثریتی صوبے کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے، ہمارا ووٹ تھا تو پاکستان بنا، ایک بات۔!
دوسری بات یہ کہ دوسرا احسان بھی ہم مہاجر قوم کا ہی ہے، جو مسلمان اقلیتی صوبوں سے تعلق رکھتی تھی!
ہمارا یہ دعویٰ بھی مستند ہے کہ اگر مہاجر ساتھ نہ دیتے تو 1947 کے بعد یہ پاکستان جی ہی نہیں سکتا تھا، اسے مارنے کے سارے انتظام تھے، لیکن مہاجروں نے اپنی صلاحیت اور محنت سے اس ملک کو آکسیجن دی، سانس بحال کیا، زندہ کیا
لیکن دونوں ہی احسانات کے بعد اس ملک کے بدبخت قابضوں اور ناخدائوں نے ہمیں بری طرح ڈسا ہے!
جیسے ہی ملک بنانے کے لیے ووٹ لیے اور فوراً ہمیں بھول گئے! ہمیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ آئے کہ ہندوستان کے وفادار رہو، پھر آواز لگا لگا کر بلایا کہ صرف ہنر مند مہاجر ہی آئو اور ہماری مدد کرو، کیوں کہ یہاں قابل لوگوں کی شدید کمی ہے!
جیسے ہی یہ ملک اپنے قدموں پر کھڑا ہونے لگا، پاکستان بن گیا ، پاکستان چل گیا، کشتی بھنور سے نکلی تو سب سے پہلے ہمیں ہی معتوب کیا گیا، ہمیں ہی مختلف حیلوں بہانوں سے اعلیٰ ملازمتوں سے نکالا، ہمیں باقاعدہ ملک کے اقتدار سے بے دخل کیا، اسی منصوبے کے تحت ہمارا دارالحکومت چھینا، کوٹا سسٹم لگایا، اور ہمیں برباد کرنے میں آج کی تاریخ تک کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے!!
اب یہ بات تو اظہر من الشمس ہے
کراچی میں جو بھی کارروائی کی گئی ہے، وہ صرف مہاجروں کو کچلنے کے لیے ہی کی گئی ہے
امن وامان قائم کرنے سے لے کر ملک توڑنے کے الزامات تک، سب ڈھکوسلے ہیں شہر والوں کی آواز کو دبانے کے لیے
ساری کارروائیوں کا مقصد صرف مہاجروں کو غلام بنا کر کچلنا تھا اور انھیں اچھا خاصا کچل بھی دیا گیا، تاکہ ان سے کراچی چھین کر انھیں اقلیت بنا دیا جائے، اور یہ کام دھڑلے سے ہو رہا ہے، آپ اپنے گھر اپنی گلی میں اجنبی ہیں۔
اس شہر کے ادارے پر مختلف صوبوں کے لوگوں کا تصرف ہے، اس شہر کے اداروں کے نام بدلے جا رہے ہیں، یہاں دنیا جہاں کی ثقافت منائی جاسکتی ہے، لیکن کراچی میں اگر کوئی ثقافت ہمارے اداروں میں نہیں منائی جاسکتی تو وہ مہاجر ثقافت ہے!
دوسری طرف ہمیں آج خود بھی پتا نہیں کہ ہم کون ہیں؟
ہمارا نسلی تشخص اور شناخت کیا ہے؟
بس پاکستانی اور مسلمان؟ یہ تو محض شہریت اور مذہب ہے۔ قوم کسی صورت بھی نہیں ہے، آج اپنی نئی نسل کو یہ سب بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی ہجرت اور اس ملک کی چار قوموں سے جداگانہ تشخص کے سبب ‘مہاجر قوم’ کہلاتے ہیں۔
ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ اس ملک میں اور اس ملک پر سب سے زیادہ حقوق کس قوم کے ہیں؟
اس ملک کے لیے سب سے زیادہ جدوجہد، حصے داری اور قربانیاں کس قوم کی ہیں؟
بلا مبالغہ مہاجر قوم کی ہی ہیں!
لیکن قومی اخبارات اور مرکزی چینل سے لے کر سارے پروپیگنڈے میں آپ کو کوئی یہ بتاتا ہی نہیں، آج ہمیں یہاں پہنچا دیا گیا ہے کہ ہمارے بچوں کو تو یہی نہیں پتا کہ ہم نسلی طور پر ہم کون ہیں؟
کچھ دوسری قوم کے احباب تجاہل عارفانہ سے کام لے کر واہیات بیان دیتے ہیں کہ مہاجر کوئی قوم نہیں، مہاجر تو یہ ہوتا ہے وہ ہوتا ہے
نتیجہ یہ نکلا تاریخ میں جو زوال پذیر قوموں کے ساتھ ہوتا ہے
ہمارے شہر میں اور ہمارے اپنے گڑھ میں ہی ہم غلاموں کی طرح ہونے لگے ہیں، ہماری عزتیں تارتار ہیں، لیکن ہر طرف سکون ہے!
ہمارے مبارک علی کبھی مہاجروں کے حق کے لیے اپنے لب نہیں کھولتے، ہمارے انور مقصود دوسری قوموں سے جوتے کھا کھا کر بھی اپنے تشخص کی بات کرنے کی ہمت نہیں کرتے، ہمیں اردو بولنے والا سندھی کہتے ہیں۔ جو اپنے آپ میں مضحکہ خیز اصطلاح اور سنگین مذاق ہے اور بدقسمتی سے مہاجر سیاست اور تشخص میں سب سے نمایاں شخصیت الطاف حسین نے بھی اپنی سیاست کو “متحدہ” بنانے کے چکر میں “اردو اسپیکنگ” اور “اردو بولنے والے سندھی” کی سنگین غلطی کی۔ یہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا، چاہے متحدہ ہوجاتے، لیکن ‘مہاجر’ شناخت پر اٹل رہنا چاہیے تھا۔
آج صورت حال یہ ہے کہ اپنی قوم کے کسی بھی حق کی بات کرو، بڑے بڑے باشعور احباب منہ بنائیں گے اور تعصب کا الزام لگائیں گے!
آپ کے بہت سے معزز اساتذہ بھی لٹھ لے کر دوڑیں گے، نجی محفلوں میں بتائیں گے، رضوان، جذباتی ہے، اور فلانے سیاسی رجحانات رکھتا ہے وغیرہ!
بہت سے سینئر کہتے ہیں کہ آپ فلانے سیاسی جماعت کے کارکن کی طرح بات کرتے ہیں! یا ان کی “ترجمانی” کر رہے ہیں!
لیکن یہ نہیں بتا پاتے کہ کیا اپنا بنیادی حق مانگنا اور ڈنکے کی چوٹ پر قومی شناخت کی بات کرنا، ملکی دستور کی دی گئی ضمانتوں کے مطابق بات کرنا اگر تعصب، جانب داری، غداری اور دہشت گردی ہے؟؟؟ تو پھر ہمیں بہ صد شوق یہ سارے الزامات قبول!
ارے ابوجہلو!
کیا آپ ہمیں سکھائیں گے کہ پاکستان کیا ہے؟
عہد کے شداد ہمیں بتائیں گے کہ یہ ملک کس لیے اور کیسے بنا؟؟
ہر گز نہیں، ہمیں اس کی حاجت نہیں!
ہمیں اس ملک میں سر اٹھا کر جینا ہے اور اس کے لیے کسی اجازت اور کسی کی سند کی ضرورت نہیں کہ ہم پاکستان کے وفادار ہیں یا نہیں!
ہمیں اپنے پورے تشخص اور پورے حق کے ساتھ یہاں ہی رہنا ہے
اور جاتے جاتے یہ بات بھی یار دکھیے
ہم اس ملک کی اس نسل اور اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں کہ جس قوم کے نام کی تشریح کے بعد حب الوطنی کا نعرہ لگانے کی ضرورت بھی نہیں رہتی! کیوں کہ ہماری پچھلی شناختیں اس ہجرت کے صدقے ہی ‘مہاجر’ ہوئی ہیں، اس لیے باوجود نسلی ہندوستانی ہونے کے ہم خود کو مہاجر کہتے ہیں۔ ہمارا خود مہاجر کہنا ہی پاکستان سے کھلی وابستگی کا ہی اظہار ہے!
جب ہم “جیے مہاجر” کہتے ہیں تو اس کا ترجمہ “پاکستان زندہ باد” ہی بنتا ہے!
اب آپ ہمیں غدار، متعصب، تنگ نظر، دہشت گرد اور سیاسی کارکن وغیرہ سمجھتے ہیں تو معذرت کے ساتھ، بہت ہوگیا اب آپ کی بات گدھے کی لات سے زیادہ نہیں ہے!
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے!
جیے مہاجر،
جیے مہاجر اور سدا جیے!
Categories