Categories
Exclusive Interesting Facts Karachi KU MQM Rizwan Tahir Mubeen انکشاف ایم کیو ایم جماعت اسلامی دل چسپ رضوان طاہر مبین قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم

اسلامیہ کالج: اوپر ’جمعیت‘ تھی اور نیچے ’اے پی ایم ایس او‘

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
ہمارے ہاں سرکاری کالجوں میں سیاست ہوتی ہے۔ چوں کہ 1983ءمیں جنرل ضیا الحق نے طلبہ یونین پر پابندی لگا دی تھی، اس کے بعد سے نام نہاد جمہوریت کے نام پر کئی خاندان حکوموں میں آئے اور گئے، لیکن طلبہ یونین کی واپسی کوئی نہ کرسکا۔ تو ہم نے بھی ایسے زمانے میں ’اسلامیہ آرٹس وکامرس کالج‘ میں چار برس گزارے۔ کالجوں میں ’طلبہ تنظیمیں‘ بھی ہوتی ہیں، یہ سنا تھا ان تنظیموں میں ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کا نام شاید واحد تھا، جو سب سے زیادہ ہمارے کان میں پڑا تھا وال چاکنگ اور پوسٹروں کے سبب، جب کہ دوسری طرف شہر کی ایک اور بڑی طلبہ تنظیم ’اے پی ایم ایس او‘ تو شاید میٹرک کے زمانے میں پہلی بار ایک چھوٹی سی پتنگ پر لکھا ہوا دیکھا، تو بہت اچنبھا ہوا تھا کہ یہ کیا بلا ہے، بنا کسی نقطے کے لکھے ہوئے اس ’عجوبہ‘ نام کو ہجے کرنے کی ناکام کوشش کی، ہمارے کچھ پَلے نہیں پڑا کہ یہ سڑک کے بیچ لٹکی ہوئی سہ رنگی ننھی سی پتنگ پر یہ کیا ’منتر‘ لکھا گیا ہے یعنی ننانوے فی صد مہاجر آبادی کی بستی میں آنکھ کھولنے اور ’ایم کیو ایم‘ کے مضبوط حلقے ہونے کے باوجود ’اے پی ایم ایس او‘ سے واقفیت کا یہ عالم تھا، البتہ ’ایم کیو ایم‘ کی گواہی تو گلی کوچوں کی دیواریں خوب دیتی رہتی تھیں اچھا، کالجوں میں داخلوں کے حوالے سے ہماری ایک کوشش یہ بھی رہی تھی کہ تنظیموں کے ’ہنگاموں‘ والے کالج نہ ہوں، اس کے لیے بھی اسلامیہ کالج بہتر بتایا گیا، تاہم ایک پکی عمر کے انکل نے تو خوب دانت نکالتے ہوئے کہا تھا، میاں اسلامیہ کالج تو پَھڈوں کے لیے بہت بدنام ہے، یہ سن کر ہمیں بہت پریشانی ہوئی، پھر جب اسکول میں ساتھ پڑھے ہوئے سید رزاق شاہ نے سر راہ کالج میں داخلے کا سن کر ازراہ تفنن یہ کہا تھا کہ ’بیٹا، تم کیا کرو گے؟ کالجوں میں تو گروپنگ ہوتی ہے‘ اور پھر ان کے آپس میں جھگڑے ہوتے ہیں، شاید میں نے اسے کہا تھا کہ میں تونیوٹرل ہوں، جس کے جواب میں اس نے یہ کہنا چاہا تھا کہ وہاں ایسا کچھ ممکن نہیں ہوتا۔ رزاق شاہ کی اس بات نے بھی ہمیںکافی پریشان رکھا تھا اور پھر ذہن میں کالج کی ایک پریشان کُن تصویر بن گئی تھی، شاید پھر ہم نے پوچھ تاچھ کر کسی طرح خود کو تسلی دے دی تھی
خیر، اب آجائیے کہ جب ہمارا کالج شروع ہونے والا ہے
آج پہلا دن ہے ہم سمجھے تھے کہ پڑھائی کا سلسلہ ہوگا، لیکن صاحب معلوم یہ چلا کہ یہ پہلا دن تو ’تعارف‘ کی نذر ہونا ہے۔ یعنی کالج کی واحد طلبہ تنظیم ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کی جانب سے یہ نئے طلبہ کے لیے یہ ایک خیر مقدمی بیٹھک ہے جس میں کالج کی تاریخی اہمیت کا ذکر ہے، جس میں یہاں سے پڑھ کر جانے والے شاہد آفریدی، یونس خان، محمد سمیع اور دانش کنیریا سمیت بہت سے ’اپنے‘ ارکان اسمبلیوں کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ پھر دھان پان سے شرٹ باہر کیے، سر پر ٹوپی اوڑھے، جھولتے جھالتے سے ڈیل ڈول کے لچک دار وجود کے حامل ناظم ارمان بھائی نے بھی اچھا خاصا پرجوش خطاب کیا شاید اس میں ہی انھوں نے ہی یہ تمام باتیں کیں، پھر جو بات انھوں نے کی وہ ہمیں یاد رہ گئی کہ آپ بے شک ’جمعیت‘ میں شامل نہ ہوں، لیکن کالج کا ’امن‘ قائم رکھنے کے لےے ضرور ’جمعیت‘ کا ساتھ دیں۔ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی تھی، لیکن شاید آنے والے دنوں میں ہمیں یہ بات سمجھ میں آنے والی تھی!
کالج میں داخلی دروازے کے ساتھ ہی داہنی دیوار پر، جہاں جنرل ایوب خان کی جانب سے کالج کے افتتاح کی سنگ مرمر کی ایک تختی دیوار میں نصب تھی، چھت سے دیوار تک رنگین دیوار میں خوش خط مولانا مودودی کا وہ خطاب لکھا تھا کہ ”ایک وقت آئے گا کہ سرمایہ داری کو واشنگٹن میں جگہ نہ ملے گی اور کمیونزم ماسکو میں لرزہ براندا م ہوگا“ اس کے سامنے والی دیوار پر بھی اوپر تک جمعیت کا نشان، پرچم اور کچھ تنظمیی مواد آئل پینٹ سے آراستہ دیوار پر کندہ تھے
تو جناب ہمارے کالج کا یہ پہلا دن اسی میں ہی ختم ہوگیا، ہم جو کالج ’پڑھنے‘ کے خیال سے ارمان سجائے گئے تھے، جسے جمعیت کا ’ارمان‘ (ناظم) اپنے نام کر گیا! اگلے دن کالج انتظامیہ کی جانب سے نیم اجڑے سے سبزہ زار پر ہمیں ’خوش آمدید‘ کہا گیا، جہاں نصب پاکستان کے پرچم کے کھمبے پر اس جھنڈے کے بالکل نیچے ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کا پرچم بھی نتھی کیا گیا تھا اور اوپر جانے والی سیڑھیوں پر بالکل سامنے کے کٹہرے سے کالج میں داخل ہوتے ہی سامنے نظر آ جاتا تھا۔
اس تقریب میں کالج میں درس وتدریس کے حوالے سے اہم باتیں بتائی گئیں کہ جیسے اگر کوئی ٹیچر کلاس میں نہ آئے، تو آپ مجھے بتائیں، کوئی مسئلہ ہو، شکایت ہو، اور فلاں ٹیچر فلاں بات کا ذمہ دار ہے، وغیرہ وغیرہ کلاسوں میں حاضر ہوں، یونیفارم میں آئیں وغیرہ وغیرہ۔ غالباً اس کی نظامت کالج کے اس وقت کے وائس پرنسپل امین خالد کر رہے تھے، جو اُس وقت کے پرنسپل عزیز الحسن صاحب کے مقابلے میں کافی متحرک اور چاق وچوبند معلوم ہوتے تھے۔ یہیں باری باری تمام اساتذہ کا تعارف بھی کرایا گیا کہ کون سے استاد کا نام کیا ہے اور وہ کیا پڑھاتے ہیں، کس شعبے میں ہیں، پھر رول نمبر کے حساب سے ہماری کلاسوں کی راہ نمائی کر دی گئی اور ہم اپنے اپنے کمروں میں جا کر بیٹھ گئے
پھر چل سو چل کلاسوں کے اوقات کار، مضامین کا چناﺅ اور پھر ان کی تبدیلی پتا چلا کہ ’تاریخ‘ کا شعبہ تو یہاں موجود ہے، مگر اساتذہ ندار ریٹائر ہوگئے ہوں گے، نئی تقرری نہیں کی گئی، البتہ ہم پُرعزم تھے کہ بنا ٹیچر کے بھی اس کا امتحان دے سکتے ہیں، لیکن پھر سر مہدی کی ہدایت پر عمرانیات کی پہلی کلاس لی کیوں کہ انھوں نے غالباً جب ہم پہلی کلاس میں آکر بیٹھ گئے تھے، تو آکر باقاعدہ کہا تھا کہ آپ نے ’عمرانیات‘ کا مضمون متخب کیا ہے یا نہیں، لیکن اتنے اتنے بجے کالج کی تیسری منزل پر آکر عمرانیات کی پہلی تعارفی کلاس ضرور لے لیجیے، پھر بھلے یہ مضمون نہ لیں، لیکن پہلی کلاس میں شرکت ضرور کریں۔ پھر جب ہم نے یہ کلاس لی تو ہی ہمیں معلوم چلا کہ عمرانیات کا مضمون دراصل معاشرے کے حوالے سے ہے نہ کہ ’ستاروں کا کوئی علم ہے، جیسا کہ ہمارے ایک دوست نے اپنی دانست میں بتایا تھا، خیر پھر شاید کچھ ماہ بعد ڈگری کلاسوں کے داخلے بھی ہوئے تھے
اب ہمیں کالج کے پہلے باقاعدہ پھڈے کا احوال تو اس طرح یاد نہیں، کہ کیا بیتی تھی، لیکن اتنا ضرور پتا ہے کہ ہم پہلی منزل پر ہوتے تھے، یہ کوئی دوپہر بارہ کے اریب قریب کا وقت تھا جب کالج میں ہنگامہ آرائی کا پتا چلا فائرنگ پتا نہیں ہوئی تھی یا نہیں، لیکن پہلی منزل سے کالج سیڑھیوں کا مرکزی راستہ بند کر دیا گیا تھا اور اچانک پورے کالج میں سراسیمگی سی پھیل گئی تھی شاید یہی ہمارے سامنے کالج کا پہلا تصادم تھا، جب ہمیں بغلی راستے سے کالج سے باہر نکالا گیا تھا، جو دروازہ اکثر بند رہتا تھا، جس کے پار فارم جمع کرانے کی کھڑکیاں تھیں اور پھر چند قدم کے بعد مزید ایک دروازہ مزید تھا، یہی وہ گلی تھی، جس کے برابر میں کچھ اکابرین کی قبریں، پھر ’اسلامیہ لا کالج‘ اور پھر اسلامیہ سائنس کالج تھا۔ ہمیں وہاں سے نکل کر خاص ہدایت کی گئی تھی کہ اِسی گلی میں سے نکل کر جائیں، بائیں طرف کالج کے مرکزی دروازے والی سڑک کا رخ ہرگز نہ کریں یوں بٹوارے سے قبل کی پرشکوہ رہائش گاہوں والے علاقے کے بیچ سے نکل کر ہم گھر لوٹے تھے اس روز ہم دوسری بس بدلنے کے لیے صدر میں اُترے، تو وہاں اپنی کالونی کی بس میں بیٹھتے ہوئے اسکول کا شناسا بی سیکشن کا لڑکا راحیل ملا تھا جس کا داخلہ شاید جناح کالج میں ہوا تھا، ہم نے اسے بتایا کہ اسلامیہ کالج میں ہے تو صرف ایک ہی تنظیم، لیکن پھر بھی پتا نہیں کیا پھڈا ہوا ہے تو اس نے آگاہ کرنے والے انداز میں بتایا تھا کہ ”ابے ’اینٹری‘ ماری ہوگی ’اے پی‘ نے!“ یوں ہم پہلی بار ’انٹری مارنے‘ کی اصطلاح سے آگاہ ہوئے کہ کسی تنظیم کی جانب سے کالج میں آنے کی کوشش کرنا اور اپنا ’سیٹ اپ‘ قائم کرنادراصل اس تنظیم کا ’اینٹری مارنا‘ کہلاتا ہے، جس پر کالج میں موجود تنظیم سخت مزاحمت کرتی ہے، یوں مارکٹائی کی نوبت بھی آجاتی ہے اور صورت حال کشیدہ ہو جاتی ہے، اسلحہ وغیرہ تک چل جاتا ہے خیر جناب، دو ایک روز کی چھٹیوں کے بعد ہم کالج گئے، تو کالج کا ہر وقت کھلے رہنے والا دروازہ سلاخوں کا دروازہ بند تھا۔ کالج میں داخل ہوتے وقت موجود مسلح رینجرز کے اہل کار نے ہم سے کالج میں داخل ہونے کے لیے کالج کا کارڈ طلب کیا اورپھر ہماری جامہ تلاشی لی، بستے تک کو بھی کھول کر اچھی طرح دیکھا کہ کیا ہے، اور سر سے لے کر پیر تک پورا جسم اچھی طرح ٹٹولا گیا ہم زندگی میں پہلی بار اس سلوک سے گزر رہے تھے، اس لیے یہ نقش ہوگیا
اس وقت شاید سارے تنظیمی لڑکے روپوش تھے لیکن پھر ہمیں تو دھیان بھی نہیں تھا، اسی درمیانی عرصے میں ایک مرتبہ شاید کالج سے باہر نکلتے ہوئے، یوں کہیے کالج کی ڈیوڑھی میں سر عامر سبحانی سے کالج کے حالات سے متعلق کچھ پوچھا ہوگا، تو انھوں نے آنکھوں کے اشارے سے کہا تھا کہ جب تک یہ بیٹھے ہوئے ہیں، تو کالج کا ماحول تو کشیدہ ہی رہے گا۔ ہم نے ان کی توجہ دلانے پر دیکھا، تو وہاں کالج کے احاطے میں کھڑی ہوئی کچھ اسکوٹروں پر کچھ لڑکے بیٹھے ہوئے تھے شاید آٹھ سے دس ہوں گے ہم نے حیرت سے انھیں دیکھا تھا شاید اس سے پہلے ان پر توجہ ہی نہیں دی تھی، باقی لڑکوں کی صورت تو نہیں پتا، لیکن ایک دو تو دیکھنے ہی میں بہت ’پرتشدد‘ حلیے کے حامل معلوم ہوتے تھے، گہری رنگت کے مضبوط جسامت کے ہَٹے کَٹے سے، جیسے فلموں میں لڑائی کے عادی افراد دکھائے جاتے ہیں، یا گلی محلوں میں انھیں ہم انہیں ایلے میلے لڑکوں میں گنا کرتے ہیں۔
اچھا، یہ ماجرا ہے!
یعنی ہمیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ کالج کی مرکزی سیڑھیاں اس لیے بند ہیں کہ اوپر جمعیت کی ’حکومت‘ مزاحم ہے، جب کہ نیچے ’اے پی ایم ایس او‘ کالج میں اپنی جگہ بنانے پر مُصر ہے، اور ان دونوں کے درمیان رینجرز اور پولیس کے مسلح اہل کار حائل تھے
(باقی اگلے بلاگ میں)
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights