(تحریر: رضوان طاہر مبین)
ایک مرتبہ ایسا ہوا تھا یہ کشیدگی مسلح تصادم کا سا رنگ لینے لگی تھی اور اس سخت کشیدگی میں ہم کالج کے مرکزی دروازے سے ہی نکل رہے تھے کہ اوپر موجود جمعیت کے ’ہراول دستے‘ نے ”نعرہ¿ تکبیر، اللہ اکبر“کا جذباتی الاﺅ بھڑکا دیا خوب نعرے بازی یہ مرحلہ ان کے لیے ایسا ہوتا ہے کہ ’جنگ‘ کے محاذ پر کفار سے ٹکرا جانا ہے ’جمعیت‘ کی اسی شدید نعرے بازی میں جب ہم حسب روایت بغلی سیڑھیوں سے اتر کر لائبریری والی راہ داری سے ہوتے ہوئے کالج کے مرکزی دروازے کی اُور بڑھے، تو اس لمحے اچانک اوپر کی سیڑھیوں سے نیچے ’اندھا دھند پتھراﺅ‘ شروع ہوگیا۔ یہ پتھراﺅ ’اندھا‘ اس لیے تھا کہ کالج کی سیڑھیوٓں کی بناوٹ ایسی تھی کہ اوپر ی منزل کی سیڑھیوں کے کٹہرے زمینی سیڑھی سے ذرا باہر کو نکلے ہوئے تھے، اس لیے پہلی منزل سے نچلی منزل کی جانب یہ دیکھنا کہ کون کھڑا ہوا ہے، تقریباً ناممکن تھا اور ’جمعیت‘ کے لڑکے اپنے اَن دیکھے ہدف کو بالکل اندھا دھند نشانہ بنا رہے تھے جہاں ’اے پی ایم ایس او‘ کے لڑکوں کے ساتھ پولیس اور رینجرز ہی نہیں، بلکہ بہت سے اساتذہ اور کچھ طلبہ بھی موجود تھے ہم بھی وہیں تھے، اوپر سے بہت بھاری بھاری پتھر نیچے پھینکے جا رہے تھے کہ اگر کسی کے سر پر پڑ جائے تو وہ بہت بری طرح گھائل ہو جائے بعد میں کل وَل جب ہم کالج کی بالائی منزل پر گئے، تو معلوم چلا کہ یہ پتھراﺅ دراصل کالج کی دیوار پر لگی ہوئی سیمنٹ کی جالیوں کو توڑ توڑ کر کیا گیا تھا ظاہر ہے، اوپر کہیں پتھر تو جمع نہیں ہوں گے ان کے پاس ایسے بہت سے پتھر مجھ سے بھی بہت نزدیک بھی آ آ کے پڑے تھے صورت حال خراب ہو رہی تھی، اس لیے بس فوراً ہم کالج سے نکل آئے اگلے روز ہم نے دیکھا ہماری اسلامیات کی پروفیسر میڈیم طلعت صدیقی بہ آواز بلند جمعیت کے لڑکوں کے اس اقدام پر انھیں آڑے ہاتھوں لے رہی تھیں کہ آپ نیچے پھتر پھینک رہے تھے، نیچے تو ہم بھی کھڑے تھے اور کیوں لڑتے ہو تم لوگ آپس میں، وغیرہ وغیرہ، ان کا کہنا تھا کہ طلبہ کو آپس میں لڑنا نہیں چاہیے!
پھر ہمیں تفصیل یاد نہیں یا کوئی خاص واقعہ ذہن میں نہیں کہ جس کے بعد ایسا کیا ہوا کہ ’جمعیت‘ کالج سے بالکل ہی غائب ہوگئی اور پھر ’اسلامیہ آرٹس و کامرس کالج‘ پر مکمل طور پر ’اے پی ایم ایس او‘ کا راج ہوگیا شاید یہ آگے آنے والے فائرنگ کے واقعے کے بعد ہوا ہو لیکن پہلے ’اے پی ایم ایس او‘ کی ’حکومت‘ کا ماجرا
کالج کی اندر کی دیوار پر چھوٹا سا کہیں کسی جذباتی ’جمعیتی‘ نے یہ نعرہ لکھا ہوا تھا ”الطاف کی میت، جمعیت!“ وہاں اسے مٹا کر جواباً ’کھینچ کے رکھو تان کے رکھو، مُلا بستر باندھ کے رکھو!“ درج تھاساتھ ہی ’پختون ایس ایف‘ کے سرخ بیج لگائے ہٹے کٹے سرخ وسفید تین عدد پٹھان لڑکے بھی مسکراتے ہوئے کالج کی راہ داری میں گشت کرتے ہوئے دکھائی دینے لگے یہ 2004ءکا زمانہ ہے، یعنی ’اے پی ایم ایس او‘ کی ’پختون ایس ایف‘ سے قربت کا یہ عالم ہے کہ اینٹری انھوں نے لی اور ساتھ میں ’پختون ایس ایف‘ کے لڑکے بھی ’گریبی‘ میں یہاں چلے آئے اس سے بھی زیادہ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ’ایم کیو ایم‘ تو 1997ءمیں ’مہاجر قومی موومنٹ‘ سے ’متحدہ قومی موومنٹ‘ ہوگئی تھی، لیکن ’اے پی ایم ایس او‘ کا ’ایم‘ اب بھی ’مہاجر‘ تھا اور ابھی ’متحدہ‘ نہیں ہوا تھا، یعنی یہ ’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنس آرگنائزیشن‘ تھی، تبھی ان کی جانب سے کالج میں ’اور میں مہاجر ہوگیا!‘ طرح کا کوئی رقعہ بھی تقسیم کیا گیا تھا، جسے ہم نے ناپسندیدہ یا غیر اہم جان کر اِدھر اُدھر ڈال دیا تھا، جو کہ نہیں کرنا چاہیے تھا
پھر ایک دن کیا ہوا، شعبہ¿ نفسیات کی ’لیب‘ میں ہماری کلاس جاری تھی یہ ’لیب‘ کالج کے ان چند کمروں میں سے تھی جس کی کھڑکیوں کے دروازے سلامت تھے، یہی وجہ ہے کہ سڑک سے گزرتی پُرشور گاڑیوں کا شور بہت حد تک رک جاتا تھا۔ ’نفسیات‘ کی اس کلاس میں وہی کوئی چار پانچ طلبا ہوتے، کبھی سات، آٹھ یا دس اسی لیب کے شانت سے ماحول میں میڈم نصرت حق کا لیکچر جاری تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی شاید کمرے میں آنے کی اجازت بھی طلب کی گئی تھی ’لیکچر‘ رک گیا، ساری توجہ دروازے کی جانب ہوگئی، جس کے بعد دو تین لڑکے اندر آئے اور نہایت ہی ادب سے سلام کرنے کے بعد میڈم نصرت کو ایک کتاب پیش کی اور بولے:
”میڈم، یہ قائد تحریک الطاف حسین بھائی کی طرف سے آپ کے لیے ایک چھوٹا سا تحفہ ہے“ اندر آتے ہوئے ہی شاید ہم نے ان کے سینے پر ”اے پی ایم ایس او“ کے سہہ رنگی بیج بھی دیکھ لیے تھے لیکن اساتذہ سے ان کا احترام اور باادب گفتگو ہماری زندگی میں ایک بہت ہی اچنبھے کی سی بات تھی میڈم نصرت کو کتاب دینے والا ”اے پی ایم ایس او“ کا وہ اجلی رنگت کا نشیلی آنکھوں والا کارکن تھا اور بس دو منٹ کی یہ رسمی گفتگو کر کے وہ لڑکے جس احترام سے آئے تھے، اسی ادب کے ساتھ واپس ہولیے لیکن ہمارے دماغ میں گویا ٹھیر سے گئے، کیوں کہ یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ جب ہم نے یہ دیکھا کہ ”اچھا! ’ایم کیو ایم‘ والے ایسے بھی ہوتے ہیں!!“
ہم 1990ءکی دہائی کی کراچی کے وہ ’بچے‘ ہیں، جس نے ننانوے فی صد مہاجر بستی میں 2002 ءسے پہلے صرف انتخابات کے انتخابات ہی ’یونٹ‘ آفس کھلتے ہوئے دیکھا اس کے بعد یہ دفتر ایسے بند ہو جاتا، جیسے یہاں کبھی زندگی ہی نہ تھی ایک اجاڑ کی سی کیفیت اور ایک ویرانہ ہم روزانہ اسکول جاتے ہوئے اسی کے سامنے سے گزرتے تھے، اس لیے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ انتخابات کے زمانے میں اس پر چونا کرایا جاتا اور رات کو اس کی بتیاں جل جاتیں، وہ آباد ہوتا اور پھر انتخابی ہنگاموں کے بعد شاذ ہی کبھی اُسے کھلا ہوا دیکھا، تاہم 2002ءمیں یہ مستقل طور پر کھلنا شروع ہوا کالج کا یہ واقعہ 2004ءکا ہے، لیکن سچی بات ہے، ہم نے ناپسندیدہ اور بہت بُرے تاثر والی ’ایم کیو ایم‘ کو دیکھا تو اوباش سے لڑکوں کا خیال ہی ہمارے دھیان میں آیا اس لیے یہ بہت حیران کن اور اَن مٹ لمحہ تھا
’اے پی ایم ایس او‘ نے غالباً کالج کے اندر کچھ چاکنگ بھی کی تھی علاوہ ازیں کالج کے سبزہ زار کی دوسری جانب کی دیوار جو کالج کی حدود بھی تھی، پر پہلے بھی کہیں مٹا مٹا سا ’اے پی ایم ایس او‘ پڑھا جا سکتا تھا اور شاید اکا دکا چاکنگ ماضی میں دیگر تنظیموں کی موجودگی کی بھی خبر دیتی تھی
اب سنیے انھی تصادم کے دنوں کے ایک اور ناقابل فراموش دن کا احوال
اُس روز یہی کوئی صبح ساڑھے آٹھ بجے کا ہی وقت ہوگا، جب ہم نے صدر سے بس بدلی ہوگی اور پھر اسلامیہ کالج کے لیے 11-C میں بیٹھے ہوں گے، پھر حسب معمول بس نے اسلامیہ سائنس کو جانے والی گلی پر توقف کیا ہوگا کہ ’سینٹ لارنس کالج‘ والے موڑ کے بعد بس کا اکثر اگلا ’ٹھیراﺅ‘ اسی گلی کے نکڑ پر ہوتا تھا کیوں کہ یہاں بہ یک وقت ’اسلامیہ سائنس کالج‘ کے ساتھ ’اسلامیہ آرٹس کامرس‘ والے طلبہ بھی اتر جاتے تھے اور پھر چند قدم طے کرتے ہوئے اسی شاہ راہ پر واقع کالج کے مرکزی دروازے تک آجاتے ہم بس سے اترے، ابھی شاید دو تین قدم ہی اٹھائے ہوں گے کہ اچانک ہم نے دیکھا کہ کالج کے دروازے سے ایک ’پی کیپ‘ اوڑھا، دبتے ہوئے قد کا پینٹ شرٹ پہنا لڑکا (شاید ہلکی سی داڑھی بھی تھی) اپنے پچھلے قدموں پر چلتا ہوا کالج سے باہر نکلا اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی پستول صاف دیکھی جا سکتی تھی، جسے وہ لوڈ کر رہا تھا! ایک سیکنڈ کے اندر ہم نے یہ منظر دیکھا اور اگلے سیکنڈ کا تصور کرنے سے پہلے وہاں سے واپس دوڑ لگا دی سر پر پیر رکھ کر بھاگنا کسے کہتے ہیں، یہ ہمیں زندگی میں پہلی بار معلوم ہوا اس کے شاید دو، تین سیکنڈ کے بعد فضا میں دو، تین فائر گونجے تھے ہمیں لگتا تھا کہ پستول والا کسی لڑکے کو نشانہ بنانا چاہتا ہوگا اور وہ ’ہدف‘ نکل کر ہماری ہی سمت کو دوڑے گا اور پھر بندوق کا رخ بھی پھر گرومندر کو جاتی ہوئی اسی سڑک کی جانب ہو جائے گا، جہاں ہم ’اپنی جان بچانے‘ کو سرپٹ دوڑ رہے تھے دوڑتے دوڑتے ہمارا سانس بری طرح پھول گیا تھا مگر ہمیں لگتا تھا، اگر ہم رکے تو ضرور کچھ ہو جائے گا۔ اس لیے نزدیک ہی ’واقع علامہ اقبال پبلک لائبریری‘ جا کر ہی دَم لیا ہَِوَنقوں کی طرح اتھل پتھل اور بے ترتیب ہوئے سانس کے ساتھ جا کر وہاں کے عملے کے آدمی کو بتایا تھا کہ ہمارے کالج میں فائرنگ ہو رہی ہے، اس لیے وہاں سے بھاگ کر آرہے ہیں، اس نے کہا جب بھی گولیاں چلیں، بھاگا نہ کرو، جہاں ہو وہیں فوراً زمین پر سیدھے لیٹ جایا کرو! یہ بات بھی ہم نے زندگی میں پہلی بار سنی تھی خیر پھر کالج جانے کا تو کوئی سوال نہ تھا، کچھ دیر کے بعد گھر لوٹ آئے اور خوف کے باعث دو چار روز کالج کا رخ ہی نہ کیا اگلے دن ’جمعیت‘ اور ’اے پی ایم ایس او‘ کے درمیان تصادم میں طلبہ کے زخمی ہونے کی خبر اخبار کی زینت تھی
خیر ’اے پی ایم ایس او‘ کی ’کام یاب‘ آمد کے بعد کالج کے وائس پرنسپل امین خالد انٹر بورڈ میں کنٹرولر امتحانات ہوگئے ہمیں یاد ہے کہ ہم گھر سے اخبار میں یہ خبر پڑھ کر کالج گئے تھے، اس دن بھی اتفاق سے کالج آتے ہوئے دیکھا، تو امین خالد صاحب غالباً مسافر بس سے اتر کر پیدل ہی کالج کو آرہے تھے۔ ہم نے کالج میں سر عامر سبحانی کو یہ خبر سنائی، تو وہ بھی حیران ہوئے، کیوں کہ وہ بے خبر تھے۔ کہا جاتا تھا کہ انھیں یہ ترقی ’اے پی ایم ایس او‘ کو الطاف حسین کی مادر علمی ’اسلامیہ کالج‘ میں انٹری دلوانے کے ’صلے‘ میں دی گئی تھی خیر پھر شاید سال بھر سے بھی کم عرصے میں جانے کیا ہوا، ’اے پی ایم ایس او‘ جس طرح اسلامیہ کالج آئی تھی، اسی طرح ’غائب‘ بھی ہوگئی اور پھر کالج میں پھر سے ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کا طوطی بولنے لگا
ہم طلبہ سیاست کو تعلیمی عمل میں رکاوٹ سمجھتے تھے، اس لیے ہمارے لیے ’جمعیت‘ اور ’اے پی ایم ایس او‘ میں کوئی فرق نہ تھا، اسی بابت میں قاضی حسین اور الطاف حسین کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے، جو کالجوں کا تعلیمی ماحول برباد کر رہے ہیں ہم روزانہ اپنے گھروں سے آدھا گھنٹا لگا کر کالج آتے ہیں اور یہاں جہاں بہت سے اساتذہ پہلے ہی کلاس نہیں لیتے، وہاں رہی کسر اپنے ہنگاموں اور دیگر رکاوٹوں سے یہ تنظیموں والے نکال دیتے ہیں۔
یہاں آنکھوں دیکھی ’جمعیت‘ کا احوال بھی اب سن لیجیے، ناظم صاحب ’ارمان بھائی‘ تو بہت ڈھیلے ڈھالے اور دھیمے سے آدمی تھے، لیکن ایک مرتبہ جب انھیں بہت ’مردانہ‘ انداز میں پرجوش نعرہ¿ تکبیر بلند کرتے دیکھا، تو ہم حیران ہوئے تھے کہ کیا واقعی یہ دھان پان سے ارمان صاحب ہی کی آواز اور انداز ہے!
ایک دن ہوا یوں کہ ہماری اچھی خاصی بھری ہوئی کلاس جاری تھی، جیسے ہی کلاس ختم ہوئی، اور استاد باہر نکلے، ویسے ہی ’جمعیت‘ کے پانچ چھے لڑکے کلاس میں داخل ہوگئے پھر شاید اور بھی کچھ لڑکے کلاس میں آگئے دروازے بند، آپ باہر نہیں نکل سکتے، اندر قید! پتا چلا کہ ’استصواب‘ ہو رہا ہے یعنی کالج کے ناظم کا انتخاب! ہمیں زبردستی پرچیاں دی گئیں اور تین نام بتائے گئے کہ ان میں سے کسی ایک کانام لکھیں اور پھر ایک ڈبے میں ڈال دیں، چند منٹ کی ’جبری مشقت‘ میں یہ ’انتخاب‘ بہ حسن وخوبی انجام پا گیا۔ شاید ’ارمان بھائی‘ ہی دوبارہ ناظم قرار پائے تھے، جس کے بعد استقامت کے لیے دعا کرائی گئی اور پھر کلاس میں ’نعرہ¿ تکبیر‘ بلند کیے گئے، جسے چپ سادھے دیکھنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہ تھا
ہمارے کالج میں کلاسوں کے بعد عموماً ایسا ہوتا تھا کہ ٹیچر کے نکلتے ہی اچانک ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کے لڑکے کلاس میں گھسے چلے آتے اور پتا چلتا کہ اب ’درس قرآن‘ ہوگا ہم بڑا بیچ وتاب کھاتے کہ یہ کون سا طریقہ ہے کہ کسی کو جبراً بٹھا کر وعظ کیا جائے! دوسری طرف ہماری دوسری کلاس کے لیے وقت نکلا جا رہا ہے لیکن کچھ بھی کہیے، بے سود ہی رہتا یوں پانچ دس منٹ کی زبردستی میں گویا وعظ ونصیحت کی اچھی خاصی بے ادبی کی جاتی اور تب جاکر ہماری جان چھوٹتی۔
٭٭٭٭
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)
Categories
’جمعیت‘ اور ’اے پی ایم ایس او‘ کا تصادم، پہلی بار فائرنگ دیکھی!
