Categories
Education Exclusive Health Rizwan Tahir Mubeen Society تعلیم تہذیب وثقافت دل چسپ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ صحت

سوال کرنا اور سننا سیکھیے!

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
کیا۔۔۔؟ کیوں۔۔۔؟ کیسے۔۔۔؟
یہ وہ بنیادی کلیدیں ہیں جو ہمارے سیکھنے کے کسی بھی عمل کے لیے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کے نصاب اور ہم نصابی سرگرمیوں میں اس حوالے کو ایک خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ کلاس میں استاد نے کوئی سبق پڑھایا اور بچے نے بلا چوں چرا تسلیم کرلیا اور ”یس سر“ کہہ کر سر جھکا دیا کبھی کوئی سوال ہی نہیں کیا تو اس کا صرف یہ مطلب ہرگز یہ نہیں ہو سکتا کہ بچہ بہت سمجھ دار اور فرماں بردار ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچے کے ذہن نے اس سبق کے متعلق زیادہ سوچا ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ بچہ جو ایک سبق پر دس، دس طرح کے سوال کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی ذہنی صلاحیت تیز ہے۔ اس کے ذہن نے کسی نئی چیز کو قبول کرنے سے پہلے کیا؟ کیوں؟ کیسے؟ جیسے بہت سے سوالات کرکے اپنے تصور کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ذہن نے زیادہ توجہ سے اس سبق کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش کی وجہ سے وہ آنے والے اسباق کو بھی زیادہ بہتر طریقے سے سیکھ سکے گا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بچہ جتنا زیادہ سوال کرتا ہے اس کا ذہن اتنا ہی زیادہ تیز ہوتا ہے۔ سوال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ذہن کسی بھی بات کی پوری وضاحت چاہتا ہے۔ اس کے ’دماغی کمپیوٹر] نے کسی بھی ’نئی فائل‘ کو محفوظ کرنے سے پہلے پوچھا ہے کہ اِسے دماغ کے کس زمرے میں رکھا جائے گا؟ اس کی جگہ کس فولڈر؟ کس خانے اور کس الماری میں بنائی جائے گی؟ اگر اس کے پاس پہلے سے کچھ وضاحتیں موجود ہیں تو یقیناً اب یہ اس سے آگے کی معلومات لینا چاہے گا۔ اگر معلومات نہیں ہیں تو پھر اس کا دماغ اس نئے خیال اور نئی بات کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ جاننا چاہے گا اور اس کے بعد اس کو اپنی اس وقت کی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق کوئی شبیہہ اور کوئی نام دے کر محفوظ کرلے گا۔
ہمارے معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے نصاب بنانے والوں سے لے کر اس کی جانچ کرنے والوں تک۔ قابلیت کا پیمانہ صرف نمبر اور گریڈ ہیں۔ یعنی جو بچہ جتنا زیادہ رٹّا مار کر اپنی کاپی بھر دے بس وہی بچہ ذہین ہے۔ اگر کسی نے مختصر جواب لکھ کر اپنی بات کہنا چاہی تو اس کے نمبر کم ہو جائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سوال پوچھنے اور بہتر سے بہتر سمجھنے کی بنیاد ہی نہیں پڑ پاتی اور ہم عملی زندگی میں بھی اس کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں غلط فیصلہ کرتے ہیں۔ بہت سی غلط فکر اور غلط سوچ کے پیروکار بن جاتے ہیں اور اپنے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ معاشرے کے بھی کوئی مفید شہری نہیں بن پاتے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نصاب اور ہمارے اسکولوں ہی میں بچے کے سوال پوچھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آگے چل کر بھی سوال کرنے کے عادی نہیں ہو پاتے۔ ہماری سوچ اور فکر ہی ایسی بنا دی جاتی ہے کہ ہم کوئی بھی بات سن کر کوئی بھی دعویٰ جان کر مان لیتے ہیں۔ سوال علم کی نئی راہیں کھولتا ہے۔ آج تک دنیا کی ساری ترقی اس کیوں؟ کیا؟ اور کیسے؟ ہی کی مرہون منت ہے، جس دن انسان نے سوال کرنا چھوڑ دیا وہیں ترقی کی پہیا رک جائے گا لیکن ہم اور ہمارا سماج سوال کرنے کا عادی نہیں۔ جب کہ سوشل میڈیا اور پروپیگنڈے کے دور میں تو سوال کرنے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
سوال کرنے کی جگہ ہم اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کے اتنے اسیر ہیں کہ جو شخص ہمیں پسند ہے تو اس کی بودی اور بے تکی بات بھی ہمیں پتھر پر لکیر لگے گی اور اس کی بات پر ہم کوئی سوال نہیں اٹھائیں گے، لیکن اگر کوئی ہمارا ناپسندیدہ فرد کوئی بہتر بات بھی کرے گا تو ہم جاننے کی نیت سے نہیں بلکہ اس کی مخالفت کرنے کی غرض سے سوال کریں گے۔ چوں کہ ہمیں سوال کرنے کی اہمیت اور اس کا پروٹوکول ہی نہیں پتا تو پھر مخالفت کی نیت سے کیے جانے والا سوال بھی نہایت احمقانہ اور بھونڈا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم سوال کرتے ہوئے یہ تک فراموش کر جاتے ہیں کہ ہمیں کسی کی سوچ اور نظریے سے اختلاف ہے تو ہم اس کے نظریے اور سوچ کا جواب دیں نہ کہ اس کے خاندان اور اس کی ذاتیات پر سوال اٹھانے لگیں۔ ایسے سوالات کرنے لگیں، جو کہ اس کے نظریے اور فکر کے بہ جائے اس کے ذاتی معاملات کا احاطہ کرتے ہوں۔ یہ کیفیت صرف اسی وجہ سے ہے کہ ہم سوال کرنا نہیں جانتے اور جب محض مخالفت کے لیے سوال کرنا مقصود ہوتا ہے تو پھر وہ سوال کافی سے زیادہ گھٹیا اور غیر مناسب ہوتا ہے۔ ایسی مثالوں کے لیے ہمیں صرف اپنے چند دن کے اخبارات اور خبرنامے دیکھنے ہوں گے، ہم بہت آسانی سے اس کی بہت سی نظیریں پالیں گے۔
جب سماج میں سوال کرنے کا چلن ہی نہیں ہوتا تو لوگ بھی صرف واہ واہ سننے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ کہنے کو ہم جمہوری معاشرے یا جمہوری نظام میں زندگی کرتے ہیں لیکن اگر ہم سے کوئی اچھا اور منطقی سوال کر بھی لے تو ہم منہ بنانے لگتے ہیں اور جواب دینے کے بہ جائے سوال کرنے والے کی ذات پر حملے کرنے شروع کر دیتے ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوال کا جواب نہ ملے تو جواب دینے کے بہ جائے الٹا کوئی اور سوال داغ دیا جاتا ہے۔ یہ سب رویّے سوال کرنے اور سوال سننے کی عادت نہ ہونے کے ہیں۔ اگر ہم سوال کو اچھا سمجھیں، اس سوال کو اپنے سیکھنے کے عمل کی ایک کنجی جانیں، اپنے بچوں سے سوال پوچھیں اور ان کے اندر تنقیدی نظر پیدا کریں کہ وہ سوال کریں، تاکہ زیادہ سے زیادہ جان سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں اس کی بھی عادت ہو کہ وہ تحمل سے کسی بھی سوال کا جوب دینا چاہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے بچے سوال کا جواب نہ پا کر مشتعل ہو جاتے ہیں اور پھر اس کے ردعمل میں کوئی قدم اٹھا لیتے ہیں۔ جسمانی تشدد کے ساتھ بدزبانی کرنا اسی کی مثالیں ہیں۔ اس لیے سوال کرنے اور سوال سننے اور سوال نہ کرنے کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس کی بنیاد ہماری اپنی ذات سے شروع ہونی چاہیے۔ ہمارے تعلیمی نصاب اور نظام کو اگر اس طرح ترتیب دیا جائے کہ اس میں رٹّے اور لمبے چوڑے اسباق کے بہ جائے صرف سوال کرنا اور سوال سننے کی عادت پیدا کری جائے تو ہمارے سماج میں اس حوالے سے مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ سماجی انتشار ہمارے اتحاد میں بدل سکتا ہے۔ مختلف لسانی، صوبائی اور مسلکی گھٹن اور اختلافات کو اچھے اور صحت مند مکالمے کا سہارا مل سکتا ہے۔ بہت سے لوگ مکالمے کی بات کرتے ہیں لیکن ان کے ہاں بھی اس حوالے سے غور نہیں کیا جاتا کہ اس مکالمے کی بنیادیں سوال کرنے اور سوال سہارنے میں پنہاں ہیں۔ اس لیے خود بھی سوال کیجیے، لہجے کو نرم کرکے، بغیر بدتمیزی کیے، بنا کسی اونچی آواز اور لہجے کو متاثر کیے، ایک اچھی سی مسکراہٹ کے ساتھ، دھیمے انداز میں۔ اور اگر آپ کو کسی سوال کا سامنا کرنا پڑے تو بالکل ایسے ہی انداز کے ساتھ اپنا جواب دیجیے۔ یہی سوال ہمارے اس مسائل زدہ سماج کے بہت سارے معاملات کا موثر حل بھی ثابت ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights