Categories
India Interesting Facts Karachi MQM PPP PTI Rizwan Tahir Mubeen ایم کیو ایم پیپلز پارٹی تحریک انصاف جماعت اسلامی دل چسپ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ سندھ قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مسلم لیگ (ن) مہاجر صوبہ مہاجرقوم ہندوستان

ہندوستان سے ہمارا لینا دینا؟

(تحریر: رضوان طاہر مبین)
گذشتہ دنوں ہمارے ایک مشفق ہم سے مخاطب ہوئے: ”ہندوستان سے ہمارا کیا لینا دینا؟“
نہیں جناب!
ہمارا لینا دینا کیوں نہیں، ابھی تو ہم زندہ ہیں صاحب!
ہم وہ، جنھوں نے اپنی نانی کی ’پرانی دلی‘ دیکھی ہوئی آنکھیں دیکھی ہیں!
سو یہ سینتالیس کے ذکر یہ بٹوارے کے قصّے یہ ہجرتوں کے تذکرے اس پر ہم اپنا کلیجہ ضرور تھاما کریں گے
جب تک زندہ ہیں، ہندوستان کے نام پر چونکیں گے بھی!
اور ہماری ماﺅں کی ’دلّی‘ ہمیں اپنی جانب مبذول کراتی رہے گی پرانی دلی کے اُس ’پرانے قلعے‘ کے ذکر پر ہماری پلکیں بھی چھلک جائیں گی، جہاں ہجرتوں سے قبل ہمارے بڑوں کا آخری پڑاﺅ رہا انھوں نے کراچی کی طرف عازم سفر ہونے سے پہلے وہاں بہت زیادہ کشٹ اٹھائے مرتے دم تک ’امّاں‘ (نانی) کے ضبط کیے ہوئے یہ اَشک اب ہماری آنکھوں سے ضرور بہیں گےانھیں روکا نہیں جا سکتا
وہ ستمبر 1947ءمیں فتح پوری مسجد پر پھینکے ہوئے بم کی دھمک کراچی میںہماری چھوٹی سی انگنائی کو ضرور لرزائے دے گی! اور وہ ہمایوں کے مقبرے پر پناہ گزین ہونے کے مناظر ہماری آنکھیں ڈَبڈبا دیں گے ہمیں بڑے بڑے مقبرے (جو بدمعاش سام راج 1857ءکے ’غدر‘ کے بعد پوری دلّی مسمار کرنے کے باوجود بھی نہ ڈھا سکا) دیکھ کر مغلوں کی دوراندیشی محسوس ہوگی کیا انھیں معلوم تھا کہ ان کی مسلمان رعایا پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا، جب ان کے یہ پرشکوہ مقبرے اور قلعے ہی ان کی ’جائے اماں‘ رہ جائیں گے؟
ہماری ’امّاں‘ جب اپنی جنم بھومی پرانی دلّی سے نکلیں، تو پھر کبھی وہاں پلٹ کر دیکھنا نصیب نہ ہوسکا، لیکن یہ دلّی ان کے دل میں ہمیشہ ’پناہ گزین‘ رہی اور اب وہاں سے یہ دلّی ہمارے دلوں میں اِقامت پذیر ہے اور ہمیشہ رہے گی اور صاحب، اس میں برائی ہی کیا ہے؟ ہندوستان جنم بھومی اور مدفن ہے ہمارے بڑوں کی! آپ کسی سے بھلا اپنی جَڑوں کو یاد کرنے کا حق کیوں کر چھین سکتے ہیں؟
اور وہ جو جنابِ غالب کا ”کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں ایک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے!“ یہ شعر بھی ہمارے کرب کی ذرا اور طرح سے تشریح کرتا رہے گا، کیوں کہ ہماری دادی نے زندگی کے آخری 40 برس اِس کراچی میں بہت جبر اور صبر سے گزارے۔ ان کی عزیز ترین بہن کلکتے میں رہ گئی تھیں!
سو اے ”سرزمین پاکستان والے“ پاکستانیو!
ابھی ہندوستان کو بھولنے میں کچھ دن تو لگیں گے، اور ضرور لگیں گے۔ ہرچند کہ آزادی کی خاطر یہ ہجر براہ راست ہم پر نہیں اترا، لیکن ہمارے بڑوں اور ہمارے گھرانوں میں تو ضرور اترا ہے اور ہم نے اِنھیں کی صحبت میں زندگی کی ہے۔
اس لیے صاحبو، اِسے بدشگونی نہ جانو!!
بلکہ یہ مانو، اگر ’وہاں‘ والے مسلمان نہ ہوتے، تو ’یہاں‘ والے بھی آج کہیں نہ ہوتے! یہ ملک تو پورے ہندوستان کے مسملمانوں کے لیے تھا اور ہے ہمیشہ رہے گا اس کے لیے ووٹ اور تحریک بھی پورے ہندوستان کی تھی۔ یہ درست ہے کہ اب وہاں تو وہاں، 1971ءمیں ڈھاکا میں موجود ”پاکستانی“ بھی یہاں نہیں لائے جا سکتے!
لیکن ہم جو یہاں آئے اور ہم وہ، جو باقاعدہ ’بانی پاکستان‘ کی پکار پر بلائے گئے، (حالاں کہ وہ سات اگست سینتالیس میں وہاں کے مسلمانوں کو ہندوستان کا وفادار رہنے کا کہہ آئے تھے) انھی کی نسلوں میں ہجر کی آٹھویں دہائی میں یہ تذکرے موجود ہیں۔
سو چاہو تو ہمیں معاف کر دینا ہمارے دھیان میں آتا ہے کہ ایسے میں تو ہمارے وہ ”ہم وطن“ ان ’سرحدوں‘ کے پار ہی بھلے!
رہ گیا ہندوستان تو اِس ’دشمن‘ ہندوستان کو ہماری جانب سے ’ہمارا‘ لکھنے کا ”گناہ“ کرنے والی ہم یقیناً آخری نسل ہوں گے!
وہ زمین جہاںآپ کے بزرگ دفن ہوں، جہاں آپ کے والدین کے والدین پیدا ہوئے ہوں جہاں سے آزادی کے نام پر آپ ایک دوسری جگہ آئے ہوں اور پھر سے ایک نئی زندگی شروع کی، اور پھر ایک اور طرح کے بھیانک کشٹ، حب الوطنی پر سوالات اور نسلی بنیادوں پر دل آزار طعنے آپ کا مقدر ہوں وہاں ہمیں اتنا حق تو دیجیے کہ ’سبز شناخت‘ رکھتے ہوئے، ہم ہندوستان کو بھی ’اپنا‘ کہہ سکیں، ایسا کہنے سے ہماری ’پاکستانیت‘ (آپ کے نزدیک) متاثر نہ ہوتی ہو۔ ہم ہی شاید ایسا سوچنے والی آخری نسل ہوں، ہمارے بعد یہ سب شاید اور کوئی محسوس بھی نہیں کرے گا اور کرے گا تو اس میں وہ لگاﺅ ہرگز نہیں ہوگا، جس کا اظہار ہم کر رہے ہیں، لیکن ایک مرتبہ داد تو ضرور دیجیے گا ہمارے ہجرت کرنے والے بزرگوں کو، جنھوں نے کسی ایک لمحے بھی ہمارے دلوں میں ہندوستان سے ’محبت‘ پیدا نہیں ہونے دی، یہ لگاﺅ اور لگن تو ہم نے وقت کے ساتھ ساتھ خود اکتساب کی ہے
ہم نے تو شدید ترین نفرتوں کے نصاب پڑھ کر ہندوستان سے وہ ’انتہاپسندانہ رویے‘ روا رکھے ہیں کہ اب کم سنی کے اس ’غیر متوازن پن‘ کو دیکھ کر عجیب شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے لیکن آپ ہمیں اتنا حق تو دیجیے کہ ہم اپنے ماضی سے اس قدر قلبی اور جذباتی تعلق تو قائم رکھ سکیں، جو ہر انسان کا مسلّمہ حق ہے ایسا کرنے سے ہم حب الوطنی کے نام نہاد گوشواروں میں مشکوک نہ ہوں!
ہمارے ان فطری جذبات کو ہمارے ’پاکستانی‘ ہونے کے خلاف قرار دے کر ہمیں ’غدار‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار نہ دے دیا جائے!

(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights