(تحریر: ڈاکٹر شاہد ناصر)
ایک ہونہار مگر متنازع اور ذومعنی جملوں سے شہرت پانے والے مزاحیہ فن کار تابش ہاشمی اپنے ایک ہلکے پھلکے کامیڈی شو کے ذریعے جو قبضہ میئر کی درگت بناتے ہیں تو کراچی والے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔
بہت سوں نے ان کا موازنہ وسیم بادامی کے پورے کیرئیر سے کر ڈالا، کسی نے کہا کہ تابش ہاشمی کا ایک پروگرام وسیم بادامی کے پورے کیرئیر پر بھاری ہے۔ ایک دل جلنے یہ بھی کہا کہ تابش ہاشمی شاہ زیب خان زادہ پر بھی بھاری ہے۔ ہم اِسے مزید بڑھا لیتے ہیں، جان کی امان پائیں تو کہہ لینے دیجیے کہ اس “بازاری لونڈے” نے کراچی کے بڈھے بڈھے صحافیوں کو آئینہ دکھا دیا ہے اور اس دور میں کراچی کی بربادی پر بھٹو کے قصیدے پڑھنے والون کو چلو بھر پانی میں ڈبو دیا ہے۔ کیا مظہر عباس، محمود شام، مجاہد بریلوی، شاہ زیب خان زادہ، وسیم بادامی، ناصر بیگ چغتائی، وسعت اللہ خان اور نہ جانے زاہدہ حنا، توصیف احمد خان جیسے پرانے پرانے لکھنے والے۔
کیا ایک کل کے لمڈے یوٹیوبر کی اوقات کے بھی نہیں ہے، انھیں شرم نہیں آتی کراچی میں بیٹھ کر کراچی کی بات نہیں کرسکتے، قبضہ میئر اور وڈیرہ پارٹی کے قصیدے پڑھتے پڑھتے قبروں کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں، لیکن بھوکے کتوں کی طرح کراچی کی بات کرنے والوں پر پل پڑتے ہیں، ان کی تیوری چڑھ جاتی ہے کہ کوئی نوجوان ان سے کہہ دے کہ کبھی مہاجر قوم کے دکھڑے بھی رو لیا کرو۔ لیکن انھیں نہ جانے منافقت کیوں اتنی عزیز ہے کہ انھوں نے طے کیا ہے کہ بھٹو کی غلاظت کھاتے کھاتے ہی قبروں میں اتر جائیں گے اور تاریخ کے کوڑے دان سے بدبودار صحافت کا ایک باب رقم کردیں گے، لیکن کبھی کراچی کے حق کی بات نہیں کریں گے۔ ان کی اوقات تو یہ ہے کہ فیس بک پر نواز لیگ پر چڑھائی اس لیے کرتے ہیں کہ کراچی میں پیپلز پارٹی کی نااہلی کا پردہ رکھ سکیں، انھیں بلاول کی ادائوں پر واری جانے سے فرصت نہیں کہ ڈمپروں سے مرنے والوں کے لیے کچھ کہیں منہ کھولیں۔
وسیم بادامی اور شاہ زیب خان زادوں جیسوں کے بڑے بڑے چینلوں پر پروگرام روزانہ آرہے ہیں لیکن انھیں اسلام آباد کی خبروں اور وہاں کی تبدیلیوں سے فرصت نہیں کہ کبھی آواز دیں کہ کراچی والوں کو بھی انسان سمجھو!
کراچی کے مینڈیٹ سے لے کر یہاں کی حالت زار تلک، انھوں نے کبھی اس شہر کا حق ادا کرنے کی کوشش نہیں کی، انھوں نے کبھی اپنی صحافت کو اپنے لوگوں کی آواز بن کر بے داغ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ صحافت کے ماتھے پر کلنک کا داغ ہیں، یہ وہ لغویات تو بڑے شدومد سے کرتے ہیں جو تصویر کا ایک رخ ہوسکتا ہے، اس کا ماضی ہوسکتا ہے، لیکن پورا سچ نہیں ہوتا، یہ سندھ کے وڈیروں کے قصیدے پڑھنے سے فرصت نہیں پاتے، یہ کراچی کے عوام کے مجرم ہیں، یہ اپنی مہاجر قوم کے مجرم ہیں، یہ اپنے شہر کے سزا وار ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ یہ صحافت کے نام پر دھبا ہیں، وہ دھبا جو کسی اور قوم میں ہوتے تو ان کا نان نفقہ بن ہوچکا ہوتا، مگر ہائے ہم بدنصیب کراچی والے!
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)
Categories
کراچی کے بڈھے صحافی، اور لمڈے “یوٹیوبر” کی مار
