Categories
Exclusive Media PPP PTI Society انکشاف پاکستان تحریک انصاف پی ٹی وی پیپلز پارٹی جیو نیوز دل چسپ ذرایع اِبلاغ سمے وار بلاگ عالمی منظرنامہ قومی سیاست مسلم لیگ (ن)

اب میڈیا خبر نہیں دیتا۔ کیوں؟

(تحریر: سعد احمد)
لفظوں کا اثر، آگہی کا عذاب اور خبروں کا تہلکا شاید اپنے آپ میں ہمیشہ سے بہت گہرا تاثر رکھتا ہے۔ تبھی انسان کی معلوم تاریخ سے طاقت ور ان کا پیچھا کرتے رہے ہیں۔
زیادہ تمہید اور تفصیل میں جائے بغیر ہم آج کے زمانے کی بات کرتے ہیں کہ جہاں اطلاعات کی تیز رفتاری ہے، لیکن یہ خبریں، یہ معلومات اور یہ اطلاعات کا طوفان دراصل “بے خبری” اور ہمیں کسی نامعلوم ڈوری سے باندھے ہوئے ہونے کا نام تو نہیں ہے؟
سوچیے آپ جس اخبار، ٹی وی، ویب سائٹ یا موبائل ایپ سے لے کر کسی سوشل میڈیا سے خبریں لے رہے ہیں، وہی تو سب کچھ نہیں ہیں، لیکن اب وہی سب کچھ ہیں۔ جو جتنے اثر کے ساتھ جو باتیں کر رہا ہے، ہم وہی سب کچھ مان رہے ہیں، اگر کوئی خبر یا کوئی موضوع ہمارے سامنے سے ہٹا دیا جائے تو ہم اِسے بھول جائیں گے اور کوئی زبردستی سامنے لایا جائے تو ہم لاکھ نہ چاہیں لیکن وہ سب ہمارے اردگرد چھاتا چلا جائے گا۔
یاد کیجیے کہ چند سال پہلے تک کن موضوعات پر بات کرنا معیوب تھا؟
وہ کون سی باتیں تھیں جو سب کے سامنے نہیں کی جاتی تھیں؟
وہ کون سے پہلو تھے جن پر سلیقے سے گفتگو ہوتی تھی، اور کون سے احوال کے حجاب ہوا کرتے تھے؟
آج وہ سب قصہ پارینہ بن چکے، اب ہم انٹرٹینمنٹ سے لے کر خبروں تک مخصوص لابیوں کے کنٹرول میں ہیں، ہمارے میڈیا گروپ والے، سوشل میڈیا کے مالکان سے لے کر ان پر اثر رسوخ رکھنے والے جو چاہیں گے وہ ہماری سوسائٹی میں ہو کر رہے گا۔ آپ چاہیں تو کتنی ہی اسٹوپڈ سی باتوں کو عام کردیجیے اور چاہے تو کسی کو مذاق بنا کر رکھ دیجیے۔
ہم سوال کرنا اور سوچنا بھول چکے۔ یہ جو اسکرین پر ہے، اس کے علاوہ بھی دنیا ہے! بلکہ اصل میں وہی دنیا ہے جو اخبار کی زینت نہیں بن سک رہی!
اصل دنیا وہی ہے جسے سوشل میڈیا دبا دیتا ہے
اصل خبر وہی ہے جو کسی ویب سائٹ پر نہیں لگ رہی
اصل اہم چیز وہی ہے جو کسی میڈیا انفولنسر کے ہاں سے نہیں آرہی کیوں کہ اس سے مالی مفاد وابستہ نہیں ہے
سو صاحبو!
اس لیے اب سیاسی جماعتیں میڈیا ہائوسز خرید رہی ہیں، میڈیا ہائوسز قائم کر رہی ہیں، کالم نگاروں کو گھیر رہی ہیں، میڈیا انفولنسر کو چارہ ڈال رہی ہیں، کیوں کہ اسکرین جو کہے گی وہ سیاہ سفید ہوجائے گا اور سفید سیاہ۔ ورنہ کیا سیاست دان کا کام صحافت کرنا ہے، یہ صحافت کریں گے جو تنقید برداشت نہیں کرسکتے۔ جو ایک سخت سوال پر دھمکیوں پر اتر آتے ہیں،
سوچیے!
اب کوئی سچ سچ نہیں ہے، صرف روپیا سچ ہے، مالی مفادات گروہی منافعے عزیز ہیں، مقامی سے لے کر بین االاقوامی سطح تک خبر کھو چکی ہے۔
اور اب ہم سب غیر محسوس طریقے سے انھی واٹس ایپ، ایکس، فیس بک، انسٹا، ٹک ٹاک سے لے کر اخبارات، ٹی وی چینل اور ان کے یوٹیوب سے لے کر سارے مواد کے مطابق ناچ رہے ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں۔ ہم وہ غلام ہیں جسے ابھی پتا بھی نہیں ہے کہ اس کو بغیر زنجیر کے کیسے باندھا گیا ہے۔
آپ سوچیے، تب تک ہم کچھ خبر ڈھونڈتے ہیں، دیکھتے ہیں اسکرین کے بغیر خبر کہاں سے ملتی ہے اور خبر کیا ہوتی ہے، تب تک کے لیے اللہ حافظ!!
۔
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights