Categories
Education Exclusive Media PPP Saad Ahmad Society انکشاف پیپلز پارٹی تعلیم تہذیب وثقافت دل چسپ ذرایع اِبلاغ سعد احمد سمے وار بلاگ سندھ سیاست قومی تاریخ قومی سیاست کراچی مہاجر صوبہ مہاجرقوم

زاہد ابڑو نے قائداعظم اکادمی کو سندھی ثقافتی مرکز بنا دیا

(تحریر: سعد احمد)
جب سے عمران خان کی حکومت نے بچت کے نام پر علمی تہذیبی اداروں کا گلا گھونٹے کا قدم اٹھایا تب سے مقتدرہ قومی زبان (ادارہ فروغ قومی زبان) ہو یا اردو لغت اور قائداعظم اکادمی ہو یا اور کوئی وفاقی تہذیبی وعلمی مرکز۔ اس کا زوال جاری ہوگیا ہے۔
سردست ہم کراچی میں قائم قائداعظم اکادمی کی بات کرنا چاہیں گے جسے ہماری فارم 47 کی مسلط حکومتوں نے اتنی ہی اہمیت دی ہے جتنی وہ بانی پاکستان کو دیتے ہیں۔ آپ ٹھیک سمجھے، ہم نہیں لکھ سکتے کہ یہ حکم راں بابائے قوم کو ان کے مزار سے بھی بے دخل کردینا چاہتے ہیں۔ ماجرا یہ ہے کہ قائداعظم اکادمی میں ڈائریکٹر زاہد حسین ابڑو نے سندھی ثقافتی مرکز بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
وہ قائد کے وفات اور پیدائش سے لے کر 14 اگست اور 23 مارچ جیسے ایام کو بھی سندھی اجرکوں سے ڈھانپ دیتے ہیں۔ ان کا تو بس نہیں چلتا کہ قائداعظم کی جناح کیپ اتار کر انھیں سندھی ٹوپی اور اجرک پہنا دیں۔ شاید آنے والے دنوں میں وہ یہ بھی کرلیں۔
بھئی ہم سندھی ثقافت کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ہر چیز کی ایک جگہ ہوتی ہے۔ اگر آپ قائداعظم اکادمی کی اہم مسند پر بیٹھ کر قائد کے فلسفے پر تحقیق اور تدریس کے معاملات دیکھنے کے بہ جائے بجٹ ٹھکانے لگانے کے لیے سندھی ثقافت کے فروغ کو اختیار کریں گے تو اس پر تنقید بھی ہوگی اور احتجاج بھی ہوگا۔ طویل عرصے سے دیکھا جا رہا ہے کہ آپ ڈنگ ٹپائو اسٹائل میں چار چھے مارے باندھے کے مقررین لا کر فوٹو سیشن کراتے ہیں اور اجرکیں اور سندھی ٹوپی کا اشتہار اخبارات میں چھپوا دیتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ نہ ہی کسی کو احساس ہے کہ یہ قائد کے نام پر ہو کیا رہا ہے؟
چھانٹ چھانٹ کر سندھی ادارے اور سندھی ثقافتی شناختوں کو سامنے لایا جاتا ہے، جیسے حال ہی میں بے نظیر دیوان یونیورسٹی میں پروگرام کرایا۔ ایسے ہی لیاری یونیورسٹی ان کی پسندیدہ ہے، کیوں کہ یہ لسانیت کے پروردہ ہیں، ان کا مقصد اس اہم مسند پر بیٹھ کر سندھی ثقافت مسلط کرنے کے مشن پر مدد کرنا ہے، جو کہ پیپلزپارٹی بھرپور طریقے سے جاری رکھی ہوئی ہے۔ سندھی نمبر پلیٹ سے لے کر اردو کا گلا گھونٹ کر سندھی زبان مسلط کرنے تلک
گلستان جوہر کے ڈگری کالج میں انھوں نے روسٹرم بھی وہ اختیار کیا جس پر اجرک رنگی ہوئی تھی۔ یہ غلط طریقہ کار ہے۔ یہ کراچی ہے یہاں کراچی کی ثقافت کیوں نہیں ہے اور قائد اعظم کاسندھی اور سندھی ثقافت سے کیا تعلق ہے؟ قائد کے جانے کے بہت برسوں کے بعد جا کر اجرک اور سندھی ٹوپی کو سندھ کی شناخت بنایا گیا۔ یہاں تو بھٹو جیسے لیڈر کے دور میں بھی اجرک اور سندھی ٹوپی کی کوئی تصویر نہیں ہے، جی ایم سید جیسے سندھی قوم پرست نے بھی شاید ہی کبھی سندھی ٹوپی پہلے پہنی ہو۔ بعد میں شاید پہنی تو پہنی۔
ہمیں سندھی ثقافت سے کوئی دشمنی نہیں، لیکن کراچی میں قائم قائداعظم اکادمی جیسے متبرک ادارے کے ذریعے ایک مخصوص ثقافت کا فروغ کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ اسے لگام دینا ہوگا۔ حیرت ہے کہ کراچی میں موجود اہل علم و تحقیق اس معاملے پر کیوں گونگے ہوئے پڑے ہیں۔ ان کو کیوں موت آرہی ہے کہ وہ اس پر آواز اٹھائیں کہ یہ قائداعظم اکادمی ہے، اس میں تو قائد کی بات کرلو۔ یہ شاہ لطیف اکادمی تو نہیں ہے، قائد اکادمی پر تو قائد کی ثقافت ہونی چاہیے، یہاں تو قائد کے پاکستان کی ثقافت ہونی چاہیے، یہاں تو بانیان پاکستان کی ثقافت ہونی چاہیے۔ ورنہ بہتر ہے قائداعظم اکادمی کو بند کردیں، قائد کی توہین اور بانی پاکستان کی ہتک کرنا بند کریں۔
یہاں بار بار کہتے ہیںکہ ہمیں سندھی یا کسی بھی ثقافت سے کوئی دشمنی نہیں ہے، لیکن یہ طریقہ کار قابل مذمت اور شرم ناک ہے کہ قائد اکادمی کو آپ سندھی ثقافتی مرکز بنا دیں۔ زاہد حسین ابڑو کو کوئی تو جا کر روکے ٹوکے، کوئی تو سمجھائے، کوئی تو بتائے کہ یہ کیا کر رہے ہو،
کیا اب یہاں کوئی ایسا مرد باقی نہیں رہا ؟
.
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights