Categories
Education Exclusive Interesting Facts Media Rizwan Tahir Mubeen Society اردوادب انکشاف پی ٹی وی تعلیم تہذیب وثقافت جیو نیوز دل چسپ ذرایع اِبلاغ رضوان طاہر مبین سمے وار بلاگ سمے وار- راہ نمائی

’گھوسٹ رائٹر‘ کا المیہ!

سمے وار (تحریر: رضوان طاہر مبین)
سماج میں کسی بھی ’کَلا‘ کے لیے اس کی قبولیت ہونا یا نہ ہونا بہت زیادہ معنی رکھتا ہے۔ اگر وہ ’کَلا‘ معاشرے میں قبول نہ ہو تو اِسے اختیار کرنے والا منہ چھپاتا پھرے گا، سب سے کترائے گا اور کبھی یہ نہیں کہے گا کہ وہ اس کام سے وابستہ ہے۔ قطعہ¿ نظر اس سے کہ وہ کام درست یا غلط ہے، جب وہ کام ’باعث عزت‘ یا ’قابل فخر‘ بن جائے، تو پھر یہ ساری صورت حال تبدیل ہو جائے گی۔ وہی لوگ فخر سے سب کو یہ بتائیں گے کہ وہ فلاں کام کرتے ہیں۔ اس کے لیے یہاں ہم مثال کے لیے بھی کسی دوسرے ’پیشے‘ یا ’کام‘ کا ذکر ہرگز نہیں کریں گے، بلکہ براہ راست اپنے موضوع کی بات کریں گے، جی ہاں، یعنی ’گھوسٹ رائیٹر‘ کی!
یہ شاید انگریزی لفظ ’گھوسٹ‘ (بھوت) ہی کا اثر ہے کہ اس کا اردو ترجمہ ’بھوت لکھاری‘ نہیں کیا جا سکا ہے۔ دوسرا ہماری نظر سے آج تک تو کوئی ایسا فرد نہیں گزرا، جو بہت فخر سے یہ بات سب کو بتائے کہ وہ ’گھوسٹ رائٹر‘ ہے، یا اپنے کوائف میں یہ ’کارنامہ‘ بھی درج کرے کہ وہ دوسروں کے مضامین، کالم، بلاگ، اسکرپٹ یا کتابیں وغیرہ لکھتا ہے، یعنی وہ صرف اپنی تحریر یا لکھنے کا ایک مخصوص معاوضہ لے کر اپنی تحریر سے اپنے نام تک سے دست بردار ہو جاتا ہے۔
’گھوسٹ لکھاریوں‘ کے حوالے سے سماج کے کچھ ’لَٹھ بَردار‘ ایسے بھی پائے جاتے ہیں، جو ایسے ”تحریر فروشوں“ پر ’جسم فروشوں‘ کی طرح کی کوئی کڑی ’حد‘ نافذ کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ایک لکھنے والا عام طور پر کافی حساس فرد شمار ہوتا ہے۔ ایک وقت ہوتا ہے کہ وہ اپنے لکھے ہوئے الفاظ کو لے کر اچھا خاصا ’ملکیت پسند‘ رہتا ہے۔ اس کی تحریر کا چاہے کوئی معاوضہ بھی نہ ملا ہو، لیکن اس کی تحریر پر اس کا نام ضرور درج ہونا چاہیے، مگر پھر کچھ وقت بدلتا ہے، حالات اور اس کی زندگی کے تقاضے بھی بدلتے چلے جاتے ہیں اور شاید اُسے اپنی ’کَلا‘ کی عادت سی بھی ہو جاتی ہے، تو پھر وہ یہ ’سمجھوتا‘ بھی کر ہی لیتا ہے کہ اس کے تحریر کردہ لفظوں پر اس کا نام بھی نہیں ہوگا، بلکہ اس کی لکھی ہوئی تحریریں کسی اور سے منسوب کر دی جائیں گی۔
اس کی لکھی ہوئی کسی تحریر کی تعریف کے ذریعے کوئی اور اپنی گردن اکڑائے پھرا کرے گا۔ اس کے کہے گئے اشعار پر ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے کہیں اور برسیں گے، یہاں تک کہ مشاعرے لوٹ لیے جائیں گے۔ اس کے ’کالم‘ اور ’بلاگ‘ پر شہرت کسی اور کے حصے میں آئے گی، اس کی تحقیق پر کوئی اور ’ڈاکٹر‘ کہلائے گا، اس کے تحریر کردہ مقالے پر کسی اور کو ڈگری مل جائے گی۔ اس سب کے بدلے میں اُسے صرف کچھ پیسے ہی ملیں گے۔ جی فقط ’کچھ پیسے!‘ جس کے بدلے وہ ہمیشہ اپنی زبان بند رکھے گا اور خاموشی سے اپنے ’فن‘ پر کسی اور کی ’نام وَری‘ کا تماشا دیکھا کرے گا۔ کیوں کہ یہ ایک باقاعدہ ’طے شدہ فروخت‘ ہے، اس میں کوئی جبر ہے اور نہ کوئی زور زبردستی۔
لیکن دیکھا جائے، تو ایک طرح کا جبر تو ہوتا ہی ہے ’لکھاری کے حالات کا جبر!‘
یعنی وہ ایک کام اپنے نام سے کرتا ہے، تو اُسے باعزت زندگی گزارنے کے لائق محنتانہ نہیں دیا جاتا، تو دوسری طرف سماج میں ایسے ’صاحب ثروت‘ بھی ہوتے ہیں، جو یہ خواب دیکھتے ہیں کہ وہ بھی چار لوگوں میں اہل فن وتخلیق، صاحبِ تحریر اور صاحب کتاب کہلا سکیں! سو یہ خفیہ طریقے سے چند پیسے دے کر دوسروں کی تخلیق کو اپنا نام دے کر اپنی شخصیت کی اس کمی کو پورا کرتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سماج میں جیسے کوئی بھی جسم فروش کبھی خوشی سے یہ کام نہیں کرتا، ایسے ایک ’بھوت لکھاری‘ بھی کبھی ’خوشی‘ سے اپنے لفظوں کی ایسی قیمت نہیں لے سکتا، کہ جس پر سے اس کا نام تک کسی حرفِ غلط کی طرح مٹا کر کسی دوسرے کے نام کو ٹانک دیا جائے۔
جس طرح کسی بھی کام کرنے والے کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اُسے ایک ایسی، ایسی چیز چاہیے، اس میں یہ یہ خوبیاں ہوں، اور وہ اس طرح ہو اور اُس طرح ہو، بعینہ ’بھوت لکھاری‘ کو بھی حسب منشا ’ہدایات‘ جاری کی جاتی ہیں کہ انھیں ایک ایسی تحریر چاہیے، جس کا موضوع یہ ہوگا، طوالت اتنی ہوگی، یہ اس طرح سے لکھی جائے گی، اس میں فلاں، فلاں حوالے دیے جائیں گے، یہ والے اعداد وشمار ہوں گے، اور اس میں یہ بھی لکھ لیجیے گا اور ذرا سا وہ بھی دیکھ لیجیے گا وغیرہ۔ اس کے مطابق لکھ دینے کے بعد پھر یہ ہوتا ہے کہ اس میں میخیں نکالی جاتی ہیں، ارے، آپ تو سمجھے ہی نہیں، ہم تو یہ لکھوانا چاہ رہے تھے اور وہ لکھوانا چاہ رہے تھے۔ نتیجتاً وہی تحریر دوبارہ ترتیب دینی پڑتی ہے اور کبھی کبھی دوسری بار میں بھی ’مطلوبہ معیار‘ پورا نہیں ہوتا اور ایک ہی تحریر کو ’سہ بارہ‘ لکھنا پڑ جاتا ہے، پیسے تو ظاہر ہے ایک ہی تحریر کے ملتے ہیں۔ تنگ آکر ’بھوت لکھاری‘ کا جی چاہتا ہے کہ کہہ دے کہ ’ارے پھر اچھا ہے ناں، یہ آپ خود ہی لکھ لیجیے!‘ لیکن وہ مجبوری میں یہ کہہ نہیں پاتا اور پھر وہ ایسی ہی مزید تحریروں پر مجبور کر دیے جاتے ہیں کہ جس کے صلے میں ان کی جانب صرف چند سکّے اچھالے جاتے ہیں۔
لکھوانے والے یہ نہیںسمجھ پاتے کہ ایک ’بھوت لکھاری‘ سے وہ ایک مصنوعی اور غیر فطری طریقے سے کوئی تحریر لکھوا رہے ہیں۔ فطری طریقے سے کوئی بھی تخلیقی تحریر لکھنے والے کی اپنی ایک خاص ذہنی اور قلبی کیفیت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ذہنی یک سوئی، دل کی آمادگی، طبعیت میں روانی اور خیالات کی فراوانی وغیرہ سے لے کر ماحول اور گردوپیش وغیرہ ایک ایسا ’منظر‘ تشکیل دیتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی بھی اچھی اور بھرپور تحریر لکھی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لکھنے والے کے لیے موضوع بھی ایک کافی بنیادی سی چیز ہوتی ہے۔ ہر شخص ہر موضوع پر شاید لکھ تو لے، لیکن اس میں معیار اور مندرجات کا فرق صاف صاف چھلکا جاتا ہے۔ لکھنے والے اپنی مہارت اور دل چسپی کے موضوع خود منتخب کرتے ہیں، پھر اس میں اپنے اپنے رجحانات اور نظریات کے مطابق ہی کوئی خیال ظاہر کرتے ہیں، لیکن یہاں ’بھوت لکھاری‘ سے چوں کہ ’حُکمیہ‘ سب کچھ لکھوایا جا رہا ہوتا ہے، تو لکھنے والا یقیناً اُس طرح سے نہیں لکھ پاتا کہ جیسا وہ اپنی ایک فطری تحریر کو لکھتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ لکھوانے والے اکثر ”آپ پہلے جیسے نہیں رہے!“ طرح کی یہ شکایت بھی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ’آپ پہلے جیسا نہیں لکھ رہے!‘۔ ان کی یہ شکایت مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر جائز بھی ہو سکتی ہے، لیکن انھیں اس کے عوامل بھی تو سمجھ لینے چاہئیں۔ کبھی کبھار یہ شکایت ’بھوت لکھاری‘ سے جان چھڑانے یا اس کا معاوضہ بڑھانے سے روکنے کا ایک ذریعہ بھی ہوتی ہے۔
اب ’بھوت لکھاری‘ اس استحصال پر کوئی صدا بھی بلند نہیں کر سکتا، کیوں کہ ہو نہ ہو یہ اس کے لیے آمدنی کا غیر معقول ہی سہی، مگر ایک راستہ تو ہوتا ہے۔ پھر وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ ’بھوت لکھاری‘ ہو کر شاید اپنی رضا مندی سے صرف اپنے نام سے ’دست کش‘ ہوا ہے اور یہ اَمر اپنے اردگرد موجود ایسے بہت بڑے بڑے اور نام نہاد ’اہل قلم‘ سے بہتر ہے، جو اگرچہ اپنے نام سے اپنی تحریریں ضرور لکھ رہے ہیں، لیکن انھوں نے دراصل اپنے قلم کو فروخت کیا ہوا ہے! وہ ’نامعلوم افراد‘ اور ’نامعلوم گروہوں‘ کی منشا کے مطابق اپنے الفاظ لکھتے ہیں اور پھر اس کی ایک الگ سے قیمت بھی وصول کرتے ہیں۔ انھیں بتا دیا جاتا ہے کہ انھیں اب ان موضوعات پر لکھنا ہے اور کس موضوع پر نہیں لکھنا! کیسے لکھنا ہے اور کیسے نہیں لکھنا! کسی کی حمایت کرنی ہے اور کس کی مخالفت کرنی ہے وغیرہ۔ اب ’بھوت لکھاری‘ اپنی تحریروں پر دوسروں کا نام دینے کے باوجود بھی ایسے ’قلم فروشوں‘ جیسی قیمت کا عَشرِ عَشیر بھی تو نہیں پا رہے، لیکن ضمیر کی عدالت میں ایک طرح سے مطمئن ہیں کہ وہ کسی مزدور کی طرح اپنی تحریر کی دیہاڑی لگا رہے ہیں، نام نہیں آرہا تو اب نام کی تو خیر ہے!
٭٭٭
(ادارے کا بلاگر سے متفق ہونا ضروری نہیں، آپ اپنے بلاگ samywar.com@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Verified by MonsterInsights